*یہ وقت بھی آنا تھا____!!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
مرا قاتل انہیں کہتے ہیں سب اور ٹھیک کہتے ہیں قسم سو بار وہ کھائیں، قسم کھانے سے کیا ہوگا *آج ملک کا ہر حصہ بے چین ہے، مشرق و مغرب میں بے قراری ہے، انسانیت آج تڑپ رہی ہے، وہ ہندوستان جو امن و آشتی کا گہوارہ تھا، جہاں آپسی میل جول ہی ساری دولت تھی، جہاں پر لوگ مہمان کو دیوتا مانتے تھے_ اتیتھی دیو بھوا_، وہ ملک خود اپنے ہاتھوں ہی دیوتا کو قتل کرنے پر تلا ہے، اپنی پہچان کو مسمار کردینے پر آمادہ ہے، سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ اور نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزن کے نام پر پورا دیس بٹ گیا ہے؛ بلکہ اس اندھی نگری اور چوپٹ راج کی شنوائی بیرون ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے، آہ__ کی رسائی عرش الہی تک جاتی ہے؛ تو پھر دنیا کیا چیز ہے، چنانچہ خود اقوام متحدہ نے اسے غیر منصفانہ قانون قرار دے دیا ہے، اور اسے جلد سے جلد واپس لینے کا مشورہ دیا ہے، آکسفورڈ اور کیمرج جیسی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیز میں احتجاجات ہورہے، ملک میں اکثر و بیشتر اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوگئیں ہیں، اور صدر ہند سے ملاقات کی جانے والی ہے.* . *عدالت عظمی میں ۵۹ سے زیادہ پٹیشن ڈالی گئی ہے اور سپریم کورٹ سے یہ امید کی گئی ہے، وہ قانون کی دیکھ ریکھ کرے، فاشسٹوں کی خبر لے؛ حسن اتفاق ہے کہ آج عدالت عظمی نے اسے قبول کرلیا ہے، اور بحث کو تیار ہے، بہت سارے اعلی حکام اور شخصیتیں اپنی سندیں واپس کر رہے ہیں، نوبل پرائز ونر بھی اس قانون کی مخالفت کر چکے ہیں، فی الوقت میوات میں انسانوں کا ایک سیلاب آیا ہوا یے، راستے بلاک کردیے گئے ہیں، ہر جگہ سے ایک سورش کی صدا ہے، طوفان کی آہٹ ہے، وقت سخت ترین آزمائش لے سکتا ہے، یونیورسٹیز میں سب سے زیادہ ہنگامہ ہے، اور شاید وہ بتا رہے ہیں کہ تعلیم یافتہ کس قدر لائق ہوتے ہیں، مگر افسوس__ انہیں مستقل ستایا جارہا ہے، دہلی پولس کی بربرتا اور شرپسندوں کا ظلم ہر کسی کے سامنے ہے، بچوں کو لائبریریوں میں گھس کر پڑھائی کے دوران مارا گیا ہے، باتھ روم میں بھی زور دستی دکھائی گئی ہے، آنسو گیس چھوڑے جارہے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان پر پیلٹ گن استعمال کی گئی ہے، خبریں یہ بھی ہیں کہ ان چھروں سے بعض کی آنکھیں چلی گئی ہیں، آہ___ یہ ظالم کتنا خود سر ہے_* *یہ سب کچھ ہورہا ہے؛ لیکن ظالم حکمران اب بھی کان میں تیل ڈالے سورہے ہیں، وہ ظلم اور زیادتی کی داستانیں دیکھ رہے ہیں؛ مگر خموش ہیں، بلکہ حوصلہ سے رہے ہیں، اپنی ضد پر اڑے ہیں، انہوں نے ہٹ دھرمی کرتے ہوئے، بے حیائی کی ٹھان لی ہے، ان کے سامنے کسی موت ہوجائے، کسی کی لاش اٹھائی جائے، کوئی کتنا ہی سسک سسک کر روتا ہو، مرتا ہو، گر گرتا ہو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا_ ساری دُنیا ایک آواز ہوکر کہہ رہی ہے کہ یہ قانون آئین بلکہ حقوق انسانی کے مخالف ہے، انسانیت کش اور ہندوستان کیلئے تہذیب کش ہے، یہ صدیوں پرانی ریت اور رواج کے برعکس ہے، یہ ملک کو دو دھڑوں میں تقسیم کردینے والی بلکہ چاہ عمیق کھود دینے والی اور معاشرت کو زہر آلود کردینے والی ہے؛ لیکن جناب ہیں کہ سنتے نہیں__* *کتنی عجیب بات ہے جو خود اپنی سند دکھانے سے قاصر ہیں، جن کے پاس کالج کی سند محفوظ نہیں، جن کے اکثر منتری جاہل ہیں، رافیل ڈیل کی فائلیں گم ہوجاتی ہیں، نرموئی اکھاڑے کے ثبوت کھوجاتے ہیں، یہ سب کچھ اعلی نظام اور زبردست حکومتی تحفظ کے ماتحت ہوجاتا ہے؛ لیکن عوام ہے کہ انہیں ہر حال میں اپنے قدیم ترین کاغذات دکھانے ہیں، سیلاب میں جن کے گھر بہہ جاتے ہیں، کبھی حادثے میں پورا گھر جل جاتا ہے، چونکہ ہندوستان میں جاہلیت کی شرح حد سے زیادہ ہے، ایسے میں ویسے ہی کاغذات سے وے گھبراتے ہیں، انہیں تو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کونسا کاغذ کیا ہے، اور کوئی کاغذ رکھیں بھی تو کیوں رکھیں_؟ ایسے ملک میں اور ایسی کیفیت میں عوام پر تکلیف مالا یطاق کا سبب بننا سوائے کمینگی اور ناہنجاری کے اور کیا کہئے_؟ یہ کیسی بے تکی بات ہے، جس ملک کا مذہب ہی کرپشن ہو وہاں مذہب کو بنیاد بنا کر شہریت کا قانون پاس کرنا کیا ہی اوچھی بات ہے__؟* دل تو سو چاک ہے دامن بھی کہیں چاک نہ ہو اے جنوں دیکھ___! تماشہ نہ بنا ہم کو Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 18/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔