*یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا ___!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں *پچھلے دو سالوں سے گیروا رنگ اپنی رنگینی میں ناکام ہوتا نظر آرہا ہے، میڈیا کا شو شرابا اور چالبازیاں اگر نہ ہوں تو ملک سے زعفرانیت کا جادو یونہی ٹل جائے، خاص طور پر مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان کے انتخابات نے تو ان کے کان کھڑے کر دئے، ہریانہ میں بھی اگرچہ کھٹر نے سرکار بنا لی؛ مگر اس کی حقیقت ایسی ہے کہ کوئی بھی مضبوط پارٹی خوش نہ ہو، ایک بیساکھی پر پورا بار ہے، یہ لنگڑی لولی سرکار ہے، جس کا ہر فیصلہ قابل نطر ہوتا ہے، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور ہیں، اب جھارکھنڈ نے انہیں زبردست سبق سکھایا ہے، جھارکھنڈ جو قدرتی مناظر سے لبالب ہے، سب سے زیادہ مزدور طبقہ اور نکسل اس کے خاص باشندوں میں ہیں، فیکٹریز اور معدنیات کے کام بھی لاجواب ہیں، وہاں پر روزانہ سینکڑوں مزدوروں کی جاتی ہوئی نوکریاں اور غربت کا گہراتا سایہ انہیں نظر نہ آیا، وہ صرف نعروں اور سلوگن میں کھوئے رہے، دہاڑی پر بلائی گئی بھیڑ کا سہارا ڈھوندتے رہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صوبہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا، اگر ہندوستان کا نقشہ دیکھا جائے تو صرف یوپی کو چھوڑ کر بمشکل ہندی صوبوں میں بی جے پی کا وجود نظر آتا ہے، اب بنگال، دہلی اور بہار کی باری ہے، ایسا کہا جاتا ہے کہ NRC کا سارا تماشہ بھی انہیں صوبوں پر قبضہ جمانے کیلئے ہے، بالخصوص بنگال میں ممتا بنرجی کے اقتدار پر حملہ کرنے کا ارادہ ہے؛ لیکن ہوائیں کچھ اور ہی کہتی ہیں، لاکھوں کی بھیڑ جمع ہوجانے کے باوجود اب حال یہ ہے کہ ان کے قدیم ترین صوبوں میں ان کا سکہ نہین چلتا، آہستہ آہستہ انہی کے دوست ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، مہاراشٹر میں سیوسینا نے انہیں کنارے کر دیا، اور عین موقع پر سیاست کی بازی پلٹ دی، اور انہیں حکومت کے ذائقہ سے دور کردیا، بہار میں نتیش کمار بھی ان کے ساتھ NRC کے مدعی پر مخالف ہوچکے ہیں، اور اپنے صوبے میں اسے لاگو نہ کرنے کا بیان پہلے ہی دے چکے ہیں، تو وہیں اکالی دل خود بی جے پی کا سب سے پرانا ساتھی ہونے کے باوجود وہ بھی اسی موضوع پر ان سے ناراض ہے، نیز کئی جگہوں سے یہاں تک خبر آئی ہے؛ کہ بی جے پی کے اکثر لوگ پارٹی بھی چھوڑ رہے ہیں، آسام میں ایک بڑی تعداد نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے، اور وہ اب NRC کے مخالف ہوگئے ہیں۔* *عجیب بات یہ ہے کہ بی جے پی مستقل اپنے قدیم فارمولے کو تقویت پہونچا رہی ہے، divide and rule کا آزمودہ درس دہراتی ہی رہتی ہے، نیا شگوفہ NRC اور CAA کی صورت میں موجود ہے، وہ جہاں کہیں ریلی کرتے ہیں، ہجوم سے مخاطب ہوتے ہیں، وہاں پر صرف ہندو_ مسلماب اور پاکستان کے سوا کچھ نہیں ہوتا، مہاراشٹر میں کشمیر کے مدعی پر ووٹ مانگے گئے، بلکہ اس زمانے میں اکثر اور آج بھی کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ _ رام مندر_ اور تین طلاق جیسے مسئلوں پر عوام کو رجحانے کی کوشش ہوتی ہے، فاشزم کی کھیتی سبز کرنے اور انہیں زعفرانی رنگ لالچ دی جاتی ہے، اور لوگ بھی مسحور پوجاتے ہیں، آوازیں لگاتے ہیں، بھکتی کا ثبوت دیتے ہیں، حتی کہ آئین مخالف نعروں پر بھی چیخ و پکار کرتے ہیں؛ لیکن پھر ان کا قیمتی ووٹ ان ہی کے برعکس ہوجاتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں بیداری پیدا ہورہی ہے، وہ سمجھ گئے ہیں کہ انہیں تقسیم کرنے کی کوشش ہے، ایک طرف جہاں جھارکھنڈ سے سب سے زیادہ مزدوروں نے اپنا کام کھویا، فیکٹریاں بند ہوئیں، اور غربت بھی تنگ ترین ہوتی گئی، نکسل حملوں کا زور بڑھا، معدنیات کو پرائیویٹ کرنے کی مہم چھیڑی گئی، اور کرپشن کو بڑھاوا دیا گیا، کیفیت ہوگئی کہ لوگ سڑکوں پر بھی آئے اور اپنی مانگیں رکھیں؛ لیکن انہیں سننے کے بجائے وہاں آخر انہیں دفعہ ۳۷۰ سے کیا مطلب ہوگا_؟ جب انسان کا پیٹ ہی خاک ہوجائے تو اسے کیا سوجھے گا_؟ ہر کہیں ملک کی بدحالی کا چرچا ہے، مہنگائی نے سر پھوڑ دیا ہے، عوام دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہی ہے، وہ کیونکر NRC پر ووٹ دینے لگے_؟ ہندو راشٹر کا سنگیت بھی کیوں انہیں سریلا لگے گا، جب خود کا ہی گلا سوکھا جاتا ہے_؟ ایسے موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ یہی بیداری قائم رکھی جائے، خاص طور پر دہلی، بہار اور بنگال کے انتخابات میں زعفرانیت کو سرے سے نکار دیا جائے، اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک دفعہ پھر وقت کا فرعون زمین دوز ہوجائے گا، رعونت سے چور خود کے پھندے میں ہی پھنس کر شکار ہوجائے گا، ہندوستان ساوارکر کی سوچ سے آزادی پائے گا، اور ایک نئی صبح طلوع ہوگی۔* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 23/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔