یہ دیس بھکتی کا ہتھیار

✍ *محمد صابر حسین ندوی*

*موجودہ حکومت کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے ہر کسی کو دیس بھکتی کا ثبوت پیش کرنے کا مکلف بنایا ہے، چنانچہ ہر کوئی اپنی باتوں کے ذریعے اور اپنی بیہودہ حرکات کی بنا پر یہ ثابت کرنے کی ہوڑ میں لگ گیا ہے؛ کہ وہ سب سے بڑا دیس بھکت ہے، ویسے محب وطن کا یہ کانسپٹ نیا نہیں ہے، لیکن اب ہر ایک کے خون کو چانچ کر اس سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جارہا ہے، یہ ایک جنون بن چکا ہے، اسی کی بنا پر ہجومی دہشت گردی نے جنم لیا، اور اس کی بھینٹ سینکڑوں لوگ چڑھ گئے، حکومت نے بھی سب سے آسان کام یہی بنا لیا ہے؛ اگر کسی کا جواب دیتے نہ بنے یا پھر کسی تحریک کو توڑنا ہو یا پھر اپنے مد مقابل کو ذلیل کرنا ہو تو اسے غدار وطن کہہ دو، دیس کا باغی بلاؤ، دیس دروہ کا لیبل چپکا دو، اور پھر اپنی گودی میڈیا کو اس کے پیچھے لگا دو، دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک اسے غدار وطن کہنے لگتا ہے. اسی حصہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسے خاص نام سے پکارنے لگ جاؤ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ انہیں کا ایجاد کیا ہوا ہے، خان مارکیٹ گینگ، آزاد گینگ وغیرہ اور پھر اس کے بعد کھانے پینے اور پہننے جیسے عام معاملات میں بھی اس کی پہچان بتلانے لگتے ہیں، چنانچہ کیلاش وجے ورگیہ جو بی جی پی کے قدیم سیاست دان ہیں، انہوں نے پھوہا کھاتے ہوئے لوگوں کو بنگالی قرار دے دیا، اور اس سے پہلے وزیراعظم نے کپڑوں سے غداروں کو پہچاننے کا نیا فارمولا ایجاد کردیا تھا، یہ حکومت اور حکومت کی ناکامی ہے کہ اسے اصل مدعا کے بجائے ایسے عناوین پسند آتے ہیں، جس کے ذریعے عوام کو بھٹکایا جا سکے، انہیں بیوقوف بنا جاسکے، وہ سوال کرنا بند کر دیں، سوچنا اور سمجھنا چھوڑ دیں، اور پھر حب الوطنی کی مجنونانہ کیفیت میں آکر سب کچھ بھول جائیں، اسی لئے کوئی تقریر اور کوئی بھی بات ہندو مسلم اور پاکستان کے موضوع سے ہٹ کر نہیں ہوتی، ایک ڈبیٹ میں بی جے پی نمائندہ کو مدمقابل نے یہ چیلینج کردیا تھا؛ کہ وہ ایک اسپیچ بھی بغیر مندر مسجد، ہندو مسلم اور پاکستان کے تذکرے کے بنا نہیں کرسکتے، اور یہی ہوا بھی، جسے دیکھ کر ہر کوئی حیران تھا.* *یہ سب ایک پروپیگنڈہ کے تحت کیا جاتا ہے، دیس دروہ کا قانون ١٢٤ اے کے مطابق اگر بات کی جائے، تو کوئی بھی ایسا فعل جس سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ ملک مخالف ہے، اور ملکی عوام کے مابین بے چینی کا باعث ہے، تب تک وہ دیس دروہ نہیں ہوسکتا، لیکن بات یہ نہیں ہے، واقعہ کچھ اور ہے، مودی گورنمنٹ ایک عرصے سے بیروزگاری سے پریشان ہے، مہنگائی نے سر پھوڑ دیا ہے اور ہر ایک کی کمر توڑ دی ہے، کتنے ہی گھرانے بربادی کے دہانے پر ہیں، کتنے ہی سیکٹر بند ہو چکے ہیں، طلبہ پڑھنے کیلئے بیرون ملک جاتے ہیں اور واپس آتے ہی نہیں ہیں، ساٹھ فیصد گریجویشن کر چکے طلبہ بے روزگاری کے شکار ہیں، اور اب نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ گورنمنٹ کی پراپرٹی بیچنی پڑ رہی ہے، ایر انڈیا کو کل کا کل بیچا جارہا ہے، وہ بھی اونے پونے دام میں معاملہ ختم کیا جارہا ہے، انہوں نے خود اعتراف کرلیا ہے کہ ان سے یہ کمپنیاں نہیں سنبھل سکتیں، ان سب دقتوں کے سامنے کوئی ایسا موضوع ہمیشہ چاہیے ہوتا ہے، جس سے عوام کو گمراہ کہا جا سکے، اور پھر ملک بھر سی اے اے کے احتجاج نے ان کی نیند حرام کردی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پھر سے دیس بھکتی کا نعرہ چھیڑ دیا ہے، اور اس مقصد کیلئے اس بار ایک اور بلی کا بکرا ملا ہے، چنانچہ سنبت پاترا نے شرجیل امام جیسے اسکالر کی اسپیچ کے ایک حصہ کو کاٹ کر چلا دیا ہے، ارنب گوسوامی جیسے گودی صحافیوں نے اس مسئلے کو اچک لیا اور پھر ڈبیٹ شروع ہوگئی ہے، انہوں نے ظالم اور ظلم سے مظلوموں کو بچانے کیلئے ایک مہینہ تک نارتھ ایسٹ کیلئے چکا جام کی بات کہی تھی؛ لیکن انگلش کے ٹو کا غلط مطلب لیکر ان پر دھاوا بول دیا، یہ گویا کنہیا کمار جیسا مسئلہ ہے، تو وہیں شاہین باغ کی شہرت دیکھتے ہوئے آئے دن اسے ملک سے غداری کا نعرہ دینے اور اس مقام کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ سے جوڑ کر بتانے کی کوشش کی جارہی ہے، بس اتنا جان لیجیے__! کہ یہ دیس بھکتی ایک ہتھیار ہے جسے گورنمنٹ استعمال کرتی ہے، اور اپنے سامنے کھڑی ہوتی ہوئی ہر طاقت کوپس زنداں پٹک دینے کی کوشش کرتی ہے، لیکن وہ نادان__! نہیں جانتے کہ لطف اسیری میں یہ قوم پلی ہے، اس کے شاہین اب پرواز پا چکے ہیں، جسے فضا کو صرف چیرنا ہے اور پہاڑوں کی چٹانوں میں آشیانہ بسانا ہے.* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 29/01/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔