یہ خوش آئند پہلو ہے

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(822) *یہ خوش آئند پہلو ہے __!!!*

*ہندوستان کے اندر آزادی ہند سے بالعموم اور بالخصوص بی جے پی گورنمنٹ کے بعد مسلم کشی کا ایک ایسا دور شروع ہوا ہے، کہ انہیں قانونی دائرہ میں لا کر تو کبھی کھلے عام غنڈئی کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے، پچھلے چھ سالوں سے لگاتار ایسے مسائل اٹھائے گئے جن سے مسلمانوں کی مذہبی، سماجی اور سیاسی کردار کشی ہو، انہیں متشدد بتلا کر اور غیر ملکی کہہ کر برادران وطن سے دور کردیا، پورے ملک کے اندر ہندو مسلم کی نفرت عام ہوگئی، کوئی ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہتا، جہاں دیکھو وہاں یہی بات ہوتی ہے؛ کہ یہاں کی ہر پریشانی کا ذمہ دار مسلمان ہے، وہ غیر ملکی ہیں، غیر معتبر ہیں، ان سے ہندوؤں کو خطرہ ہے، ملک کو نقصان ہے وغیرہ...... یہی وجہ ہے کہ انہیں بے رحمی و بےدردی کے ساتھ قتل کرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا، اور ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر سینکڑوں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا، گئوکشی یا بچہ چوری کے الزام میں مجمع نے پیٹ پیٹ کر مرڈالا، مزید یہ کہ ان کے اس جرم کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، عدالتوں نے بھی گویا کہ انہیں سپورٹ کیا، تو وہیں تعلیمی لحاظ سے کٹوتی کرتے ہوئے اور سرکاری اسکیموں سے انہیں الگ کرتے ہوئے حد درجہ کشمکش اور کسمپرسی کی کیفیت میں ڈالنے کی کوشش کی گئی.* *ان سب سے مسلمانوں کے اندر ایک ایسا خوف پیدا ہوگیا تھا؛ کہ وہ نہ کچھ بولتا تھا اور نہ کچھ کہتا تھا، ان کے بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے؛ لیکن سبھی خموش رہے، یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ ان کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی گئی، ان کے پرسنل لا کو ختم کرنے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے طلاق ثلاثہ بل پاس کیا گیا، بابری مسجد کا حیران کن فیصلہ کیا گیا؛ لیکن کیا مجال کہ کوئی کچھ حرکت کرتا...... ایک عرصہ سے یہ سکوت دیکھ دیکھ باطل کی اتراہٹ میں مزید اضافہ دیکھا گیا، انہیں ہمت ملی کہ ان کا خاتمہ کردیا جائے، اور آخری ضرب لگا کر قصہ تمام کردیا جائے، اور پھر CAA. NRC. NPR جیسے قوانین لاکر انہیں ملک بدر کرنے یا ڈیٹینشن کیمپوں میں ڈالنے کا مقصد رونما ہوا، ملک کے ایوان سے بھی قانونی کاروائی کردی گئی اور اسے جاری کرنے کا خواب دیکھا جانے لگا، س??ریم کورٹ اور وہ شخص جو آئین کا محافظ ہوتا ہے، انہیں بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا گیا، قوم کے صدر نے جلد از جلد ایسے کالے قانون پر دستخط کردیئے اور لحاف میں چین کی نیند سوگئے؛ ایسا لگتا تھا کہ وہ خود بھی اس کا انتظار کر رہے تھے، یا پھر انہیں اسی دن کیلئے یہ عہدہ تفویض کیا گیا تھا.* *یہ سب کچھ ہوا، ہر طرح کی بدحالی برداشت کی اور ملک کے مالک ہونے کے بعد بھی دلت سے بھی بدتر ہونے کا خطاب پایا، یہاں تک کہ ملک سے نکل جانے کو بھی تیار ہوگئے؛ لیکن یکا یک ایک لہر اٹھی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ دہلی وغیرہ کے طلبہ کی جانب سے ایک طوفان بپا ہوا، ملک کے کونہ کونہ سے لوگ جمع ہونے لگے، منہ میں زبان پیدا ہوگئی، دل میں ہمت آگئی، اور جگر گوشے کی بات کی جانے لگی، ہر کوئی بولنے لگا، علم بغاوت لیے راہوں پر نکل آئے، راستو کو پر پر کردیا، چوراہوں اور سڑکوں پر جمع ہوگئے، پولس کے ڈنڈے کھایے، سیاسی نیتاوں کے داؤ پیچ دیکھے، میڈیا کا دوغلہ پن بھی دیکھا، اپنوں کو پلٹتے اور غیروں کو ساتھ دیتے دیکھا، حکومت کا ظالمانہ رویہ، موسم کی شدت اور وقت کی نزاکت بھی دیکھی؛ لیکن سب کچھ پرے کرتے ہوئے قافلہ آگے بڑھتا گیا، اور ایک ایک فرد نے مل کر ایک زنجیر بنائی، کیا ہندو اور کیا مسلمان، کیا سکھ اور کیا عیسائی__؟ سبھی بھائی بھائی ٹھہرے. ہر کسی نے یہ محسوس کیا کہ ملک پر زد آگہی ہے، آئیں کی بات آگئی ہے، اب وجود کا مسئلہ ہے، اگر اب بھی نہ جاگے تو سر سے چھت بھی چھن جائے گی، اور جمہوریت کا گمان بھی مٹ جائے گا..... خاص طور پر مسلم معاشرے نے ایک بیداری کا ثبوت دیا، ان کے اندر جمود ٹوٹا، وہ سمندر بن کر بہہ پڑے، باطل کے سامنے ڈٹ گئے.* *سب سے بڑی بات یہ کہ جن مسلمان خواتین کو کمزور سمجھا جاتا تھا اور ایک زمانے سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا ہماری خواتین مظلوم ہیں اور انہیں گھروں کے اندر دبایا جاتا ہے، ان پر مرضی تھوپی جاتی ہے، اور ان کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے؛ لیکن کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ انہو نے ہی اس قافلہ کی قیادت کی اور شاہین باغ دہلی جیسے عظیم مظاہرہ گاہ کی بنیاد ڈالی اور اسی طرز پر پورے ملک میں سینکڑوں شاہین باغ بن گئے، یہ کیا بلکہ ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیوں نے اس کی قیادت کی، انہوں نے اتنی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا کہ ایم ایل اے بھی ان کی عقل اور سمجھ پر حیرت کرے، وہ قانون کی باتیں کرتی ہیں، اور آئین سمجھاتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل زمانے کے بعد مسلمانوں کے اندر یہ بیداری پائی گئی ہے، اس سلسلہ میں دل تو یہ چاہتا ہے کہ فرعون وقت کا بھی شکریہ ادا کردیا جائے؛ لیکن بس کیا کیجیے ___! یہ خدا تعالی کی مصلحت ہے کہ جب پودے کو کاٹا جائے اور اس کے اندر نمو کی صلاحیت ہو تو وہ پھر سے سر اٹھاتا ہے، ہم خواہ کچھ بھی ہیں، اپنی کرتوتوں میں غرق ہیں، لیکن اس بات کا اطمینان ہوگیا کہ ہم میں نمو کی قوت ہے، جتنا کاٹا جائے اتنی ہی شادابی ہوگی، ہم اور آگے بڑھیں گے، اور بڑھتے ہی جائیں گے، انشاءاللہ یہ تحریک چلے گی اور ملک کو ایک نئی راہ پر لیکر جائے گی، اب اس طوفان کو کوئی نہ روک پائے گا، اب انقلاب آکر رہے گا، اور یہ بیداری اب سب کو بیدار کرکے ہی رہے گی.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 13/02/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔