*زمانے میں جگہ بنانی پڑتی ہے__!!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*تڑپ، لگن، محنت، جد وجہد، کوشش یہ صرف الفاظ نہیں ہیں، بلکہ کامیابی کی ضمانت ہیں، علم اور عمل کے ساتھ جہد مسلسل ہی وہ شاہ کلید ہے جو انسان کو زمین سے فلک پر بٹھا دیتا ہے، آپ نے زمین میں ایک بیج دیکھا ہوگا؟ درخت کی کوئی جڑ دیکھی ہوگی؟ وہ ایک معمولی دانہ زمین کی چھاتی چیر کر اپنی گردن اٹھاتا ہے، موٹی تہوں سے زور آزمائی کرتا ہوا رونما ہوتا ہے، اس کی وجہ صرف اس کہ تڑپ اور کسک ہی ہوتی ہے، اگر شدت سے اور طلب صادق سے پاؤں بھی زمین پر مارے جائیں تو زمزم پھوٹ پڑتا ہے، چشمہ جاری ہوجاتا ہے، مدد نازل ہوتی ہے، خارق عادت اشیاء وجود میں آجاتی ہیں، نظام عالم کروٹیں بدل لیتا ہے، فکر و سوچ سے بڑھ کر انسان بلندی پہ پہونچ جاتا ہے، انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی اسی کی عکاس ہیں، اللہ والوں کی سیرتیں اور نیک ناموں کا سب کچھ اس کی بین مثال ہیں؛ بلکہ یہ قاعدہ کلیہ سمجھنا چاہئے کہ اس دنیا میں وہی منزلیں طے کرتا ہے، جس نے تسلسل کے ساتھ کاوشیں کی ہوں، یہ دنیا کسی کو جلدی قبول نہیں کرتی، یہاں پر انسانوں کی اور ہنرمندی کی کوئی کمی نہیں ہے، اللہ کی ہر مخلوق نایاب ہے، بے مثال ہے، بے جوڑ ہے، اس میں نایاب ترین ہی اپنا مقام بناتا ہے، صلاحیتوں میں عمدہ ترین صلاحیت کی آج بھی ضرورت ہے، دنیا کا ہر حصہ اس کیلئے خالی ہے، حالات بنتے اور بگڑتے ہیں؛ لیکن صلاحیتیں ناساز حالات میں ہی نکھرتی ہیں، مشکلات میں ہی جواہر پارے کھلتے ہیں، انسان اپنے پورے کمالات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے، وہ ابن الوقت بن کر زمانے کی نبض پکڑ لیتا ہے اور کامیابی کی راہ پالیتا ہے۔* *آج بہت سے مسلم نوجوانوں کی دقت یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی خوبی و ہنرمندی کے ساتھ ساتھ جہد مسلسل سے عاری ہیں، وہ زمانے کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں، مشکل اوقات کو مصیبت جان کر ہمت ہار جاتے ہیں، ہاتھ پاؤں توڑ کر ایک جگہ پر مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں، صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے؛ لیکن ان کا استعمال ناامیدی کی طرف لے جاتا ہے، وہ سب کچھ ہونے کے باجود وقت پر گرفت کرنا اور حالات سے بھڑ کر اپنی جگہ کیلئے رسا کشی کرنا نہیں چاہتے، یا شاید کسل مندی میں ہتھیار ڈال دیتے ہیں، آپ تاریخ میں بہت سے اسلامی مفکرین کے بارے میں پڑھتے ہیں، غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ جیسی عظیم شخصیات کو جانتے ہیں، اگر جانتے ہیں تو معلوم ہوگا؛ کہ ان سب کی زندگی کانٹو سے بھری ہوئی تھی، وقت کے سامنے انہوں نے خود کو پہاڑ بنا کر پیش کیا ہے، اور لگاتار محنت و کد کے زریعہ اپنی راہ ہمورا کی ہے، اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے، اگر یہ لوگ یہی سوچ کر بیٹھ جاتے کہ زندگی میں ہر چیز سجا کر پیش کردی جائے گی، ان کے خوابیدہ ہنر و صناعت کو لوگ یونہی سمجھ جائیں گے اور ہجوم عاشقاں ہوجائے گا، لوگ یونہی دور دراز سے سفر کر کے ان کے پاس علمی و فکری پیاس بجھانے اور تشنگی دور کرنے آئیں گے_؟ تو ذرا سوچئے__! کیا یہ عالی دماغ آج دنیا پر کوئی پہچان رکھتے؟ کیا ممکن تھا کہ وہ کتابوں میں حوالے کی طرح زندہ رہتے؟ کیا یہ ہوسکتا تھا کہ وہ انسانیت اور علمی دنیا پر اپنی عظیم علمی خدمات سے بارگراں کرپاتے؟ ہر گز نہیں__!! یہ دنیا مانتی نہیں، منوانا پڑتا ہے، قبول کروانا پڑتا ہے، جہد مسلسل کی لت لگانی پڑتی ہے، جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے، اور خود ??و زمانے کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے۔* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 28/11/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔