جناب عمیر بن وہب جمحی رضی اللہ عنہ سلسلہ نمبر ۴
صور من حیاۃ الصحابہ ؓ
صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿
عمیر بن جمحی رضی اللہ عنہ جنگ بدر سے خود تو اپنی جان بچا کر صحیح سلامت واپس آ گئے مگر اپنے پیچھے اپنے لڑکے کو مدینہ میں چھوڑ آئے جو مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا تھا۔ انہیں یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان باپ کے جرائم کے بدلہ میں بیٹے سے مواخذہ کریں گے اور ان اذیتوں اور تکلیفوں کے بدلہ میں اسے دردناک سزا دیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت سے باز رکھنے اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس سے پھیرنے کے لئے دیا کرتا تھا۔
ایک روز عمیر چاشت کے وقت بیت اللہ کا طواف کرنے اور وہاں رکھے ہوئے بتوں سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ وہاں انہوں نے صفوان بن امیہ کو حجر(١)
کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا تو اس کی طرف بڑھ گئے اور اسے سلام کیا۔ صفوان نے ان کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمیر! آو بیٹھو۔ کچھ دیر باتیں کریں۔ باتوں میں وقت اچھا کٹ جاتا ے۔ عمیرصفوان کے بازو میں بیٹھ گئے اور دونوں کے درمیان جنگ بدر اور اس میں نازل ہونے والی مصیبت کا ذکر چھڑ گیا۔ وہ اپنے ان قیدیوں کو شمار کر رہے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے تھے۔ صفوان نے ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے کہا:
اللہ کی قسم ان لوگوں کے بغیر اب زندگی میں کوئی لطف باقی نہیں رہا۔
تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ عمیر نے اس کی تائید کی ۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعدبولے
رب کعبہ کی قسم: اگر میرے ذمے وہ قرض نہ ہوتے جن کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی بندوبست نہیں اور میرے اہل وعیال نہ ہوتے جن کے اپنے بعد ہلاک ہو جانے کا مجھے شدید اندیشہ لاحق ہے تو میں یثرب میں جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خاتمہ کر دیتا اور اس فتنے کا سد باب کردیتا جو ہمارے لئے پریشانی کا سبب ہوا ہے۔ (نعوذ بالله من ذالک) پھر وہ سرگوشی کے انداز میں بولے : مسلمانوں کے یہاں میرے لڑ کے وہب کی موجودگی کے سبب میرا وہاں جانا ان کے لئے کسی تشویش یا شبہ کا باعث بھی نہیں ہوگا ۔
صفوان نے عمیر کی اس بات کو غنیمت سمجھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہاتھ آیا ہوا یہ بہترین موقع ضائع ہو جائے ۔ اس لئے ان کو مخاطب کرتے ہوئے بولا:
"عمیر تم اپنا سارا قرض میرے اوپر چھوڑ دو ۔ چاہے وہ جتنا بھی ہو میں اسے تمہاری طرف سے ادا کردوں گا اور تمہارے اہل وعیال کو اپنے اہل وعیال میں شامل کر کے زندگی بھر ان کی پوری پوری کفالت کرتا رہوں گا۔ میرے پاس جو دولت ہے وہ ان سب کے گزر بسر کے لئے کافی ہے۔ وہ اس سے خوش حالی اور فراخی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں ۔
تب ہماری اس با ہمی گفتگو کو اپنے ہی تک محدود رکھنا کسی دوسرے کو اس سے آگاہ نہ کرنا۔ عمیر نے صفوان کو راز داری کی تاکید کرتے ہوئے کہا: میں تمہارے لئے اس کا ذمہ لیتا ہوں ۔ “صفوان نے اس کو اطمینان دلایا۔
عمیر مسجد سے اٹھ کر باہر آئے تو ان کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بغض و کینہ کی آگ بھڑک رہی تھی۔ وہ اپنے اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لئے ضروری انتظامات میں مشغول ہوگئے۔ ان کو اپنے اس سفر اور اس کے مقصد کے بارے میں کسی شخص کی طرف سے کسی شبہے کا قطعی کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ کیونکہ اس وقت قیدیوں کے فدیے کی ادائیگی کے سلسلے میں ان کے قریشی رشتہ داروں کی یثرب کی طرف آمد ورفت کا سلسلہ برابر جاری تھا۔
عمیر نے اپنی تلوار چمکدار کرنے اور اس کو زہر میں بھگانے کا حکم دیا۔ پھر انہوں نے اپنی سواری کی اونٹنی طلب کی ۔ وہ تیار کر کے ان کے سامنے لائی گئی اور وہ اس کی پشت پر سوار ہو گئے۔ اور اپنے دل میں بغض و عداوت اور شروفساد کے ناپاک جذبات لئے مدینہ کی سمت چل پڑے عمیر مدینہ پہنچے اور انہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کے ارادے سے مسجد کا رخ کیا۔ (نعوذ بالله من ذالک) جب وہ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور اس سے نیچے اتر آئے۔ اس
وقت جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد کے دروازے کے قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ لوگ آپس میں جنگ بدر اور اس میں قتل ہونے والے قریشیوں اور ان کے قیدیوں کا تذکرہ کر رہے تھے۔ وہ مسلمان مہاجرین و انصار کے دلیرانہ کارناموں کی یاد تازہ کر رہے تھے اور اللہ تعالی کے احسان کو یاد کر رہے تھے جو اس نے مسلمانوں کی فتح وکامرانی اور ان کے دشمنوں کی ذلت آمیز شکست کی شکل میں ان کے اوپر کیا تھا۔ یکا یک جناب عمر رضی اللہ عنہ کی توجہ بدلی اور ان کی نظر عمیر بن وہب پر پڑی جو اپنی سواری سے اتر کر تلوار لٹکائے مسجد کی طرف جارہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ گھبرا اٹھے اور یہ کہتے ہوئے دوڑے
یہ کتا! ان کا دشمن عمیر بن وہب ہے۔ الله کی قسم ! یہ کسی نیک ارادے سے نہیں آیا۔ یہ مکہ میں مشرکین کو ہمارے خلاف اکسایا کرتا اور جنگ بدر سے پہلے ہمارے خلاف جاسوسی کیا کرتا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا:
تم لوگ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لو اور ہوشیار رہنا! کہیں یہ خبیث مکار کوئی دھوکا نہ کر دے۔“ پھر وہ خود لپکے ہوئے نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! الله کادشمن عمیر بن وہب ہے جوتلوار سے کمربستہ ہو کر آیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ضرور کسی برے ارادے سے یہاں آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ باتیں سن کر فرمایا کہ اسے میرے پاس لے آو
جناب عمر رضی اللہ عنہ عمیر بن وہب کے پاس پہنچے اور ان کو گریبان سے پکڑ لیا اور ان کی گردن کو تلوار کے تسمے میں پھنسا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حال میں دیکھا تو فرمایا کہ عمر!اس کو چھوڑ کر دور ہٹ جاؤ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے انہیں اور قریب آنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جا کر جاہلیت کے طریقے سے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمیر! اللہ تعالی نے ہم کو تمہارےطریقہ سلام سے بہتر سلام سے نوازا ہے۔ الله تعالی نے ہم کو سلام سے نوازا ہے جو اہل جنت کا طریقہ سلام ہے۔“
واللہ! آپ ہمارے طریقہ سلام سے زیادہ دور نہیں ہیں ۔ عمیر نے کہا ابھی کچھ دنوں پہلے آپ کے سلام کرنے کا طریقہ بھی یہی تھا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا
عمیر تم یہاں کس غرض سےآئے ہو؟”
اس قیدی کی رہائی کی امید لے کر آیا ہوں جو آپ کے قبضے میں ہے۔ آپ اس کو رہا کر کے میرے اوپر احسان کیجئے ۔ (عمیر نے بہانہ بنایا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دل کا چور پکڑتے ہوئے فرمایا
پھر تمہاری کمر میں یہ تلوارکیسی لگ رہی ہے ؟
اللہ ان تلواروں کا برا کرے کیا جنگ بدر کے روز یہ ہمارے کسی کام آ سکیں؟ (اس نے ایک اور پردہ ڈالناچاہا.)
عمیر مجھ سے سچ سچ بتاؤ تمہارے یہاں آنے کا اصل مقصد کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی باتوں پر اعتبار نہیں کیا۔
میں واقعی صرف اسی کام سے آیا ہوں ۔ (اس نے ایک بار پھر سفید جھوٹ بولا۔)
نہیں صحیح بات یہ ہے کہ تم اورصفوان بن امیہ حجر کے پاس بیٹھے تھے اور تم نے قریش کے ان مقتولین کا ذکر کیا جو بدر کے گڑھے میں ڈال دیئے گئے تھے۔ پھر تم نے کہا تھا کہ اگر میرے اوپر قرض کا بوجھ اور اہل وعیال کی کفالت کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں یثرب جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا کام تمام کر دیتا۔ تو صفوان نے اس شرط پر کہ تم مجھے قتل کر دو گے تمہارے قرضوں کی ادائیگی اور تمہارے اہل وعیال کی کفالت کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ۔ لیکن یاد رکھو! تمہارے اور اس ناپاک ارادے کے درمیان اللہ تعالی حائل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
یہ سن کر تھوڑی دیر کے لئے عمیر بن وہب بالکل ہکا بکا رہ گئے۔ پھر بول اٹھے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا:
یارسول اللہ ! ہم آپ کی بیان کردہ آسمانی خبروں اور آپ کے اوپر نازل شدہ وحی کی تکذیب کرتے تھے لیکن میرے اور صفوان کے مابین طے شدہ اس منصوبے کو میرے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ اللہ کی قسم اب مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ ہمارے اس خفیہ منصوبے سے اللہ کے سوا کسی دوسرے نے آپ کوآ گاہ نہیں کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ مجھے یہاں کھینچ لایا تا کہ مجھے دولت ایمان سے سرفراز فرمائے ۔ پھر وہ کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اپنے بھائی کو دین سکھاؤ اسے قرآن کی تعلیم دو اور اس کے قیدی کو آزاد کر دو ‘‘
جناب عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر مسلمانوں نے بہت زیادہ مسرت کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس وقت عمیر بن وہب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس آئے تھے وہ میرے نزدیک خنزیر سے بھی بدتر تھے لیکن آج وہ میرے بعض بیٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
جناب عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ مدینہ میں رک گئے۔ وہاں رک کروہ اسلامی تعلیمات کے ذریعہ سے اپنے نفس کا تزکیہ کرتے، قرآن کے نور سے اپنے دل کو منور کرتے اور اپنی زندگی کے بارونق اور مطمئن ترین ایام گزارتے رہے۔ اور اس مدت کے دوران میں صفوان بن امیہ اپنے دل کو جوٹھی امیدوں سے بہلاتا رہا۔ جب بھی اس کا گزر قریش کی مجلسوں کی طرف ہوتا وہ ان کو خوش خبری دیتے ہوئے کہتا کہ عنقریب تمہارے پاس ایک ایسی اہم اور مسرت افزا خبر آنے والی ہے ۔ جو بدر کے ہولناک سانحہ کے اثرات کو تمہارے دلوں سے محو کر دے گی۔
لیکن جب اس کے انتظار کی گھڑیاں طویل ہوئیں تو بتدریج اضطراب و بے چینی اس کے دل میں سرایت کرنے لگی اور یہ لمحہ بہ لمحہ اس کی بے قراری اور پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ جیسے وہ انگاروں پر لوٹ رہا ہو۔ وہ مدینہ کی طرف سے آنے والے قافلوں سے جناب عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ
کے بارے میں دریافت کرتا مگر کسی کے پاس اس کے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ہوتا تھا۔ آخر کار ایک سوار نے آ کر اس کو یہ اطلاع دی کہ عمیر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ یہ خبر صفوان بن امیہ پربجلی بن کر گری۔ کیونکہ اس کو اس بات کا یقین تھا کہ عمیر بن وہب ہرگز اسلام قبول نہیں کرسکتا چاہے روئے زمین پر بسنے والا ہرشخص مسلمان ہو جائے۔
ادھر جناب عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ برابر اپنے دین کا علم حاصل کرتے رہے اور جہاں تک ممکن ہوا اپنے رب کے کلام کو حفظ کرتے رہے۔ پھر ایک روز انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماضی میں ایک طویل مدت تک میں اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش میں لگا رہا اور دین اسلام کوقبول کرنے والوں کو سخت قسم کی ازیتیں دیتارہا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ وہاں پہنچ کر میں قریش کو الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دوں ۔ اگر وہ میری دعوت قبول کرلیں گے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا لیکن اگر انہوں نے میری اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو میں ان کوبھی بت پرستی اور انکار اسلام کے جرم میں ویسی ہی ازیتیں دوں گا جیسی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام قبول کرنے پر دیا کرتا تھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ اجازت پا کر وہ مکہ آئے اور صفوان بن امیہ کے گھر پہنچے اور اس سے بولے: ” صفوان! تمہارا شمار مکہ کے سربرآوردہ (اکابر، ذمدہ دار، قوم کے بڑے) لوگوں اور قریش کے اصحاب عقل و دانش میں ہوتا ہے۔ کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ ان پتھروں کی پرستش اور ان کے لئے قربانی کرنے کا جو طریقہ تم لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ عقل کی رو سے زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہے؟ میں تو اسے درست نہیں سمجھتا اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا حقیقت میں کوئی معبودنہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔
پھر جناب عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ مکہ میں دعوت الی الله کے کام میں لگ گئے اور بڑی تعداد میں لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔(۲) اللہ تعالی جناب عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کو بہترین اجر سے نوازے اور ان کی قبر کونور سے بھر دے
۔ آمین
_______________________
(١)کعبہ سے متصل شمال کی جانب ایک جگہ
(۲) سیرۃ النبیﷺ مؤلف امام ابن کثیر رح جلد ۱ صفحہ نمبر ۶۰۸، ۶۰۹
نوٹ: کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔
ناشر: eSabaq.com
eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com
No comments yet.